آہستہ آہستہ - امیر مینائی
سرکتا جائے ہے رخ سے نقاب آہستہ آہستہ
نکلتا آ رہا ہے آفتاب آہستہ آہستہ
جوان ہونے لگے جب وہ تو ہم سے کر لیا پردہ
حیا یکلخت آئی اور شباب آہستہ آہستہ
شب فرقت کا جاگا ہوں فرشتو اب تو سونے دو
کبھی فرصت میں کر لینا حساب آہستہ آہستہ
سوال وصل پر ان کو عدو کا خوف ہے
دبے ہونٹوں سے دیتے ہیں جواب آہستہ آہستہ
وہ بے دردی سے سر کاٹے امیر اور میں کہوں ان سے
حضور آہستہ آہستہ ، جناب آہستہ آہستہ
امیر مینائی
0 comments