حال دل کا آشکارا ہوگیا- داغ دہلوی
حال دل کا آشکارا ہوگیا
یہ ہمارا تھا ، تمہارا ہوگیا
راہ سے لیلٰی کی جو ذرّہ اُڑا
آنکھ کا مجنوں کی تارا ہوگیا
آتے آتے پھر گئے وہ راہ سے
بخت برگشتہ ہمارا ہوگیا
مل گئی کوچے میں اُس کے کچھ جگہ
بیٹھ رہنے کا سہارا ہوگیا
اشک پی کر رنج کھا کر ہجر میں
ہوگیا جوں توں گذارا ہوگیا
باعثِ شہرت ہمارا عشق ہے
نام دنیا میں تمہارا ہوگیا
جب ستم اُس نے کیا انداز سے
وہ ستمگر مجھ کو پیارا ہوگیا
ہجر میں ہے یہ شرابِ خوشگوار
زہر کھانا ہی گوارا ہوگیا
چُھپ سکے رازِ محبت کس طرح
چُھپتے چُھپتے آشکارا ہوگیا
پہلے ناصح کا سخن تھا ناگوار
رفتہ رفتہ پھرگوارا ہوگیا
گرچہ وہ جھوٹی تسلّی دے گئے
مجھ کو جینے کا سہارا ہوگیا
آئے کیا دنیا میں ہم کیا سیرکی
چلتے پھرتے اِک نظارا ہوگیا
منتظر تھے اِک نگاہِ مست کے
پھر کہاں ہم جب اشارا ہوگیا
داغ اترائے ہوئے پھرتے ہو تم
کیا مِلاپ اُن کا تمہارا ہوگیا
داغ دہلوی