جون ایلیا کی یاد
جون کی آمد کی خبر بارہ بنکی سے لکھنؤ تک جنگل کی آگ کی طرح لپکی
( اردو غزل اور نظم کے بڑے اور اہم شاعر جون ایلیا کی ساتویں برسی کے موقع پر بھارت کے معروف شاعر آزر بارہ بنکوی کی غیر مطبوعہ تحریر کی تلخیص پیشِ خدمت ہے۔ یہ تحریر جون ایلیا کے پہلے شعری مجموعے ’شاید‘ کے بعد شائع ہونے والے چار مجموعوں ’یعنی‘، ’گمان‘، ’لیکن‘ اور ’گویا‘ کے ناشر خالد انصاری کے توسط سے بی بی سی تک پہنچی۔)
امروہہ ایک ایسی سرزمین ہے جہاں خوبصورتی نسبتاً کم اور خوب سیرتی زیادہ پائی جاتی ہے۔ جب مجھے اطلاع ملی کہ جون ایلیا بارہ بنکی آئے ہیں تو میرا ذہن فوری طور پر سوالیہ نشان بن گیا۔ جون ایلیا۔۔بارہ بنکی۔۔کراچی؟ یہ کیسے ہوسکتا ہے ؟؟ پھر بتایا گیا کہ معروف کہانی کار رام لعل بھی آئے ہوئے ہیں۔خمار بارہ بنکوی ان کے ساتھ ہیں اور مجھے لے کر سب جون ایلیا سے ملنے ان کے عزیزِ خاص شفاعت نقوی کے ہاں جارہے ہیں۔ جب ہم سب نقوی صاحب کے ہاں پہنچے تو ہربندر سنگھ وقت وہاں پہلے سے موجود تھے۔
تعارف کے دوران ایک میانے قد کا دبلا پتلا، گندمی، بندہ نواز گیسو دراز انداز کے کشادہ پیشانی پر بکھرے بڑے بڑے بالوں والا غیرمعمولی ذہین آنکھیں اور تھکن زدہ سے چہرے پر شگفتگی سجائے جون ایلیا مجھ سے بغلگیر ہوگیا۔گفتگو کے دوران جون اور چائے بناتے ہوئے سفید سر والے رام لعل کی چھیڑ خوانی مستقل جاری رہی۔
’یار رام لعل، چہرہ تو تیرا معشوق کی طرح حسین ہے مگر بال بالکل تیرے باپ جیسے ہیں‘۔
رام لعل نے مجلس کے قہقہوں میں شریک ہوتے ہوئے جون کی جانب پیالی بڑھاتے ہوئے کہا لو پیو۔
میں کیوں ؟ پہلے خمار بھائی کو دو۔
نہیں تم پہلے پیو کیونکہ تم پاکستانی مہمان ہو۔
مگر رام لعل پاکستانی تو تم بھی ہو۔تمہارا صرف جسم ہی ہندوستانی ہے۔ روح تو پاکستانی ہی ہے۔
جون کے اس جملے پر رام لعل خاموش ہوگئے۔ جیسے بھولا وطن یاد آجائے۔
لکھنؤ بارہ بنکی سے سترہ میل کے فاصلے پر ہے لہذا جون کی آمد کی خبر بارہ بنکی سے لکھنؤ تک جنگل کی آگ کی طرح لپکی۔ شمس الرحمان فاروقی جون سے ملنے لکھنؤ سے بارہ بنکی آئے۔گفتگو مختلف موڑ مرتی ہوئی اقبال کی شاعرانہ عظمت تک جاپہنچی۔
جون نے اقبال کی شاعرانہ عظمت کے مداح شمس الرحمان فاروقی سے کہا وہ شاعر عظیم کیسے ہوسکتا ہے جس نے متضاد کرداروں کی مدح سرائی کی ہو۔
جیسے ؟؟ شمس الرحمان فاروقی نے استفسار کیا۔
جون نے اپنے بالوں کی لٹ پیچھے کرتے ہوئے کہا مثلاً ڈاکٹر اقبال کا ہیرو بیک وقت اورنگ زیب بھی ہے اور سرمد بھی۔ ایک ہی شاعر بیک وقت قاتل اور مقتول دونوں کو بلند کردار کہہ رہا ہے۔۔ مسولینی میں عظیم انسان کی کون سی خوبیاں تھیں؟ وہ ڈاکٹر اقبال کا ہیرو کیسے ہوگیا ؟ برٹش امپائر کے شہنشاہ کے سامنے اقبال نے سرِ تسلیم کیسے خم کردیا؟ کیا عظیم شاعر کا یہی کردار ہوتا ہے کہ وہ ہر طبقے کے لوگوں کو خوش کرنے کی کوشش کرے؟ اور شاہین ایک ایسا خونخوار طائر ہے جس میں رحم کا جذبہ ہرگز نہیں ہوتا۔ کیا اقبال نے شاہین کو علامت بنا کر انسان کو خونخوار بننے کی تعلیم نہیں دی ؟؟
اس گرما گرمی کے سبب محفل پر کچھ دیر کے لیے خاموشی طاری ہوگئی اور پھر ہربندر سنگھ وقت نے ماحول کو ہلکا کرنے کے لیے گفتگو فراق گور کھپوری کی شاعرانہ عظمت کی طرف موڑ دی۔
تین روز بعد بارہ بنکی میں جون کے اعزاز میں خمار صاحب کی صدارت میں مشاعرہ بپا ہوا۔ جب شمعِ محفل گھوم پھر کر جون کے سامنے پہنچی تو مشاعرہ تڑپ گیا۔
ہم تو جیسے یہاں کے تھے ہی نہیں
دھوپ تھے، سائباں کے تھے ہی نہیں
اس گلی نے یہ سن کے صبر کیا
جانے والے یہاں کے تھے ہی نہیں
اس مشاعرے کے بعد جون امروہہ ، دہلی اور ممبئی چلے گئے اور قریباً ڈھائی ماہ بعد واپس بارہ بنکی آئے۔ امروہہ پہنچ کر جی میں کیا آئی کہ سرِ بازار زمین پر لیٹ گئے۔ اٹھنے پر رئیس نجمی نے کپڑوں کی گرد جھاڑنی چاہی تو جون نے بڑے کرب سے کہا رئیس نہ جھاڑو یہ میرے وطن کی خاک ہے۔گھر کی ادبی نشست میں انہوں نے کئی قطعات اور غزلیں سنائیں لیکن ان اشعار پر گلا رندھ گیا۔
مل کر تپاک سے نہ ہمیں کیجیے اداس
خاطر نہ کیجئے، کبھی ہم بھی یہاں کے تھے
کیا پوچھتے ہو نام و نشانِ مسافراں
ہندوستاں میں آئے ہیں، ہندوستاں کے تھے
چوبیس اپریل کو جون کی پاکستان روانگی کا وقت آگیا۔ ان کی حقیقی بہن نجفی اور بھانجیوں کی سسکیاں گریہ بننے لگیں۔ جون بہن کےگلے لگے تسلی دے رہے تھے۔رو مت جلد آؤں گا۔
پر جانے والے جلدی کب لوٹتے ہیں۔
وہ شخص کیا ہوا جو تیری داستاں کا تھا