میاں محمد بخش
میاں محمد بخش پنجاب میں عربی ، فارسی روایت کے آخری معروف ترین صوفی شاعر تھے۔ آپ کی ولادت 1824ء میں میرپور کے علاقہ کھڑی شریف میں ہوئی۔ آپ نے اس علاقے کی مشہور دینی درسگاہ سمر شریف میں تعلیم حاصل کی ۔ حافظ غلام حسین سے علم حدیث پڑھا۔ حافظ ناصر سے دینی علوم کے علاوہ شعر و ادب کے رموز سے بھی آشنائی حاصل کی۔ جلد ہی عربی اور فارسی زبانوں میں عبور حاصل کر لیا۔ اس کے بعد پنجاب بھر کا سفر کیا اور علماء اور مشائخ سے ملاقاتیں کیں ۔واپس آکر ضلع میرپور ہی میں سائیں غلام محمد کے مرید ہوئے۔ آپ کی دانست میں مرشد کامل کا اہم وصف محض صاحب کرامات ہونا ہی نہیں، بلکہ حسن واخلاق کی بلندی کو چھونا بھی ہے۔
میاں محمد بخش حاکمانِ وقت سے دور دور رہتے تھے۔ اکابرین کی سیرت نے آپ کی زندگی میں روحانی انقلاب برپا کر دیا تھا۔ آپ موسیقی کے دقیق رموز پر بھی ماہرانہ نظر رکھتے تھے۔ اسی لئے آپ کی شاعری میں موسیقیت بدرجہ اتم رچی ہوئی ہے۔ آپ نے متعدد کتابیں تصنیف کیں۔ آپ نے جس عہد میں آنکھ کھولی، وہ بڑا پر آشوب دور تھا۔ 1857ء کی جنگ آزادی، انگریزوں کا کشمیر کو سکھ مہاراجہ کے حوالے کرنا ، سکھوں کے پنجاب بھر میں مظالم انہی کے دور میں ہوئے۔
آپ کی شاعری ، فکر اور مطالعے کے ڈانڈے قرآن و حدیث، فارسی شعراء عطار ، رومی ، جامی کے علاوہ منصور حلاج اور خواجہ حافظ سے لے کر پنجابی شعراء تک پھیلے ہوئے ہیں۔ آپ نے اپنی شاعری میں تصوف ہندی اور ایرانی روایت کو جذب کر کے ذاتی اور اجتماعی سوز و گداز کے فیضان سے فکر انگیز اور دلکش پیرائے میں ڈھالا ہے۔ ابن عربی اور مولانا روم کی صوفیانہ روایت ، پنجابی شاعری کی روایت کے اثر سے دو آتشہ ہوگئی ہے۔ آپ کی تخلیق کردہ مشہور داستان ”سفر عشق“ جو کہ قصہ سیف الملوک کے نام سے معروف ہے آپ ہی کے افکار و تخیلات کا پر تو نظر آتی ہے۔ آپ کی شاعری کی تین خصوصیات ہیں، سوزوگداز، پندونصائح کے شائبے کے بغیر لطیف پیرا یہٴ اظہار اورتمثیلی انداز۔
ابن عربی کے فلسفہ وحدت الوجود کی آپ ایسی تعبیر کے حامی ہیں، جو ذرّے ذرّے میں جمالِ حقیقی سے روشناس کرواتی ہے۔ انسان کو تعصبات اور فخر وغرور سے بچاتی ہے۔ اسی رویے نے آپ کی شاعری میں گہرائی اور گیرائی پیدا کی ہے اور فکر کو وسیع اور ہمہ گیر بتایا ہے۔ آپ نے خارجی احوال و کوائف کی ترجمانی کے علاوہ من کی دنیا کی سیاحت بھی کی ہے۔
خارجی اور داخلی زندگی آپ کی شاعری میں الگ الگ نہیں بلکہ باہم مربوط نظر آتی ہیں۔ آپ کے مطابق جیتے جی مرجانا اور مر کر بھی جیتے رہنا ہی فقر ہے۔ آپ اپنی شاعری میں عمل پر بہت زور دیتے ہیں، کیونکہ عمل کے بغیر کوئی بھی کام پورا نہیں ہوتا۔ آپ کی تصنیف ”قصہ سیف الملوک “ کی ساری کی ساری فضا عمل پر ہی قائم کی گئی ہے۔