اردو کا چینی شاعر: شیدا چینی
چین کی تہذیب، ثقافت اور زبان بہت قدیم ہے۔ جب زبان قدیم ہے تو شعری روایات بھی پرانی ہیں۔ اس لیے چینی شاعری بہت پائیدار روایات رکھتی ہے اور اس کا شعری سرمایہ مالا مال ہے۔ لیکن اردو زبان میں کسی چینی شاعر کی شاعری نہیں ملتی۔
شیدا چینی اردو کے پہلے چینی شاعر ہیں۔ 78سالہ لیو ینگ وین یعنی شیدا چینی جمشید پور میں رہتے ہیں۔ پیشے کے اعتبار سے دانتوں کے ڈاکٹر ہیں لیکن گذشتہ 60برسوں سے اردو میں شاعری کر رہے ہیں۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ ” لکیروں کی صدا “ حال ہی میں شائع ہوا ہے جس کی رسم اجرا یکم مارچ2009 کو شہر آہن جمشید پور میں ایک عظیم الشان جلسے میں ادا کی گئی۔
شیدا چینی کی اردو تعلیم اور شاعری کی شان نزول یہ ہے کہ ان کے والد بھی پیشے کے اعتبار سے دانتوں کے ڈاکٹر تھے اور کلکتہ میں پریکٹیس کرتے تھے۔ شیدا کی پیدائش دس جون 1931کو کلکتہ میں ہوئی تھی۔ ان کے والد 1934میں کلکتہ سے منتقل ہو کر جمشید پور آئے اور یہیں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ اتفاق سے ان کے محلے میں ایک اردو اسکول تھا اور شیدا نے وہیں تعلیم حاصل کر تے ہوئے اردو میڈیم سے میٹرک پاس کر لیا۔ انہیں اردو زبان سے بے حد لگاؤ ہو گیا اور وہ دیوانگی کی حد تک اردو زبان سے پیار کر نے لگے۔ انہیں دو ہی باتوں سے دلچسپی تھی ایک تو وائلن بجانے سے جس میں وہ کافی مہارت رکھتے تھے اور دوسری اردو ادب کے مطالعہ سے۔ اس درمیان ان کی ملاقات جمشید پور میں ترقی پسند تحریک کے روح رواں بی زیڈ مائل سے ہو گئی۔ مائل صاحب خود بھی شاعرتھے اور انہوں نے شیدا چینی کو میر، غالب، سودا، مومن، اور درد کے دیوان مطالعے کے لیے دیے۔ شیدا نے خود بھی کتابیں خرید کر اپنا مطالعہ بڑھایا اور مائل صاحب کی شاگردی میں شعر گوئی کا آغاز کیا۔ مائل صاحب جانتے تھے کہ شیدا بہترین موسیقار ہیں اس لیے ان کے اندر تخلیقی صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہے۔ اسے صرف بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ شیدا نے 1951ءمیں پہلی غزل کہی۔ جس کے کچھ اشعار یہ ہیں:
ملتے ہیں جہاں اربابِ الم اک جشن طرب ہو جاتا ہے
ہر نالہ و آہ و جور و ستم عشرت کا سبب ہو جاتا ہے
مفلس جو کرے لغزش بھی ذرا ماخوذ غضب ہو جاتا ہے
کرتے ہیں اگر زردار گنہ وہ جشن طرب ہو جاتا ہے
شیدا چینی کی شاعری میں جو چنگاریاں تھیں اسے ان کے استاد اور ہم عصر شعرا نے بھی داد دی اور ان کی کافی ہمت افزائی کی۔ لیکن شیدا نے اپنی سب سے پہلی غزل حیدر آباد کی ایک نشست میں سنائی تھی۔ اس کے بعد سے انہوں نے کلکتہ، جمشید پور کے متعدد مشاعروں میں بھی غزلیں پڑھیں جہاں سبھی ایک چینی شاعر کی اردو شاعری سن کر حیرت زدہ رہ جاتے تھے۔
شیدا چینی نے 1958ءمیں انجمن ترقی اردو کے زیر اہتمام ایک مشاعرہ میں اپنی غزل پڑھی تو نہ صرف سامعین نے کھل کر داد دی بلکہ انہیں بار بار پڑھوایا گیا۔ اس کے بعد 14اکتوبر 1958ءکو کلکتہ کے آل انڈیامشاعرہ میں بھی انہیں زبردست طور پر سراہا گیا اور اس مشاعرہ میں عندلیب شادانی، آل احمد سرو ر اور پروفیسر خواجہ احمد فاروقی جیسے نامور اصحاب ادب موجود تھے۔ ان سب نے شیدا چینی کی شاعری کو سراہا اور اسے آگے لے جانے کے لیے اہمت افزائی بھی کی۔ مشاعرے میں انہوں نے جو غزل پڑھی تھی اس کے چند اشعار:
کھل بھی جاؤ کہ لوگ کہتے ہیں
بے سبب برہمی نہیں ہو تی
حوصلہ چاہئے محبت میں
بزدلی عاشقی نہیں ہو تی
لذتِ گفتگو نہیں ملتی
بات جب آپ کی نہیں ہو تی
زندگی آشنا نہ ہو جب تک
شاعری شاعری نہیں ہو تی
شیدا چینی کی شاعری میں جہاں روایتی عشق و عاشقی کے جذبات و احساسات ہیں وہیں ان کی شاعری جذب و کیف میں ڈوبی ہوئی ہے۔ جمالیاتی احساس سے بھی بھر پور ہے۔ حالانکہ شیدا چینی کے استاد بی زیڈ مائل نہ صرف ترقی پسند تحریک سے وابستہ تھے بلکہ ایک کل وقتی کمیونسٹ کارکن بھی تھے۔ لیکن شیدا نے اپنے استاد سے صرف شاعری ہی لی۔ ان کے افکار و نظریات نہیں لیے۔ ا س لیے ان کی شاعری پر ترقی پسندی کا شائبہ بھی نظر نہیں آتا۔
1980ءمیں میں ایک سیمنار میں شرکت کے لیے جمشید پور گیا تھا توا س موقع پر ایک مشاعرہ بھی ہوا تھا۔ جس میں مجھے شیدا چینی کی غزل سننے کا اتفاق ہوا تھا۔ انہوں نے اس وقت جو غزل سنائی تھی اس غزل کے اشعار مجھے یوں یاد آگئے کہ وہ غزل”لکیروں کی صدا“ میں شامل ہے اور حالات کے لحاظ سے وہ غزل بہت ہی حسب حال تھی:
دنیائے پر بہار کا موسم اداس ہے
تیرے بغیر پیار کا موسم اداس ہے
شعلہ کچھ اور دل کی تڑپ کا جگائیے
شب ہائے انتظار کا موسم اداس ہے
کچھ ہم کو راس آگئی پابندی فضا
کچھ ان کے اختیار کا موسم اداس ہے
کیا گردش جہاں کی ہے تلخی بڑھی ہوئی
کیوں نشہ و خمار کا موسم اداس ہے
قلب و نظر کے آئینہ کو دیجئے جلا
ذوق جمال یار کا موسم اداس ہے
ترغیب اپنی آبلہ پائی کو دیجئے
صحرائے خار زار کا موسم اداس ہے
ان اشعار کو اس تناظر میں بھی دیکھنا چاہئے کہ 1979ءمیں جمشید پور میں بہت ہول ناک فرقہ وارانہ فساد ہوا تھا۔ جان و مال کا بہت بڑا زیاں ہوا تھا اس فساد میں اردو کے نامور افسانہ نگار اور ناول نگار ذکی انور کو بھی قتل کر دیا گیا تھا۔ اس کے بعد سے ہی جمشید پور کی فضا بے حد سوگوار اور بوجھل تھی۔جس کا پرتو شیدا چینی کی غزل میں نظر آتا ہے، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ جمشیدپور کی فرقہ وارانہ فضا نے شیدا چینی کی شاعری پر بہت اثر ڈالا تھا۔ وہ بہت عرصے تک خاموش رہے اور انہوں نے کوئی غزل نہیں کہی۔ شیدا کے سینے میں درد مند دل ہے وہ اپنے گرد و پیش پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ اس لیے اگر وہ اپنے ارد گرد پیش آنے والے حالات سے متاثر ہوئے اور کبھی ان موضوعات پر اشعار کہے یا خاموشی اختیار کر لی تو یہ بالکل فطری بات ہے۔”لکیروں کی صدا“ میں عرض شیدائی کے تحت منظر کلیم لکھتے ہیں۔
”دو تجربے ایسے ہیں جس نے شیدا چینی کی زندگی اور شاعری کو خاصا متاثر کیا۔اول ملک پر چین کی جارحیت اور دوسرا جمشید پور کا فرقہ وارانہ فساد۔ کیوں کہ ہندوستان پر چین کے حملے کے بعد وہ حکومت کی نگاہ میں مشکوک ہو گئے، اور ان پر پابندی عائد کر دی گئی۔حصار بندی کا یہ زمانہ ایک دندان ساز کے لیے قابل برداشت ہو سکتا تھا لیکن ایک فن کار کے لیے ذہنی اور نفسیاتی اذیت سے کم نہ تھا۔ شیدا تنہائی کے شکار ہو کر رہ گئے۔ دوسرا تجربہ جمشید پور کا فرقہ وارانہ فساد تھا جس نے شاعر کے ذہن کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ یہ حادثہ ایک انسانیت پر ایمان رکھنے والے فن کار کو مفلوج رکھ دینے کے لیے کافی تھا۔ شیدا ایک عرصے تک خاموش رہے لیکن آہستہ آہستہ فطری تڑپ اور احباب کے اصرار پر دوبارہ شاعری کی جانب رجوع ہوئے۔
شیدا چینی اپنے کلام کی اشاعت کی جانب سے ہمیشہ بے نیاز رہے ان کا بہت سا کلام دست و برد زمانہ کے ہاتھوں ضائع ہو گیا۔ اب ان کے چاہنے والوں میں ان کا کلام مرتب کر کے شائع کیا ہے اس کام میں ان کے کرم فرما شمس فریدی اور یار غار سید احمد شمیم نے بہت محنت کی ہے۔
شیدا چینی غزل کے شاعر ہیں اور انہوں نے زیادہ تر غزلیں ہی کہی ہیں البتہ اس مجموعے میں ایک نعت اور کچھ نظمیں بھی شامل ہیں۔شیدا چینی کے اشعار ذہن کو سوچنے پر مجبور ضرور کرتے ہیں:
ہم اندھیری رات میں روشن ستاروں کی طرح
ضو فگن آفاق پر ہیں مہر پاروں کی طرح
حسرتا اردو ادب کی مملکت کے جانشیں
مٹ رہی ہے یہ زباں بھی تاجدارو ں کی طرح
قصہ درد محبت ہم کسی سے کیو ں کہیں
لوگ دشمن بن نہ جائیں راز داروں کی طرح
پھول جو مہکا ہے گلشن میں خدا خیر کرے
اس نے بھی زخم نہ کھایا ہو مرے دل کی طرح
ہر زباں پر سکوں کا تالا ہے
کوئی طوفان آنے والا ہے
پھر کوئی امتحان ہے پیارے
وہ نظر مہر بان ہے پیارے
بھیگے ساون کی تیز بارش میں
دل سلگتا مکان ہے پیارے
میرے دل کی تجھ کو خبر نہیں میرے دل پہ تیری نظر نہیں
یہی جلوہ گاہ ارم بھی ہے یہی حسرتوں کا مزار بھی
نہ سکندری سے ڈری کبھی نہ ستم گری سے دبی کبھی
وہ صدائے حق و بلند ہے سر عام و برسر دار بھی
میں نے یوں بھی دیکھے ہیں لوگوں کے گھر
چھت نہیں دیوار و دروازہ نہیں
وجود اپنا بکھرا ذرا جوڑ لوں
ابھی اذن نغمہ سرائی نہ دے
ذرا اک نظر اپنے دامن پہ بھی
تو بڑھ چڑھ کر اتنی صفائی نہ دے
بچپنے کی ضد بھی ہو تی ہے بہت بالغ نظر
چاند تاروں کے لیے پھر سے مچل کر دیکھئے
شیدا چینی گردو پیش کی باتیں کہتے ہیں، سامنے کی باتیں کہتے ہیں اور بالکل ہی عام فہم زبان میں کہتے ہیں۔ ان کے اشعار پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اس سادگی میں بھی کیسی پرقاری ہے:
نظر اپنی دماغ اپنا پسند اپنی خیال اپنا
سر محفل ہے کس کا ظرف کتنا ہم دیکھیں گے
سنا ہے آج پھر اک ساحر ظلمت پسند آیا
طلسم بے حقیقت کا تماشہ ہم بھی دیکھیں گے
گنہ میرے مقدر میں نہیں تھا
یہ کیسی بے گناہی کی سزا ہوں
مجھے اظہار کا شاید سلیقہ ہی نہیں آتا
مری ہر بات ان کو اجنبی معلوم ہو تی ہے
اثر یار ب مجھے دے یا اسے درد آشناکر دے
کہ اس دل میں محبت کی کمی معلوم ہوتی ہے
چلیں ہیں راہ دکھانے نگار منزل کی
جنہیں خود اپنے ہی گھر کا نشاں نہیں معلوم
ہر بار قیامت سے ہوا سامنا میرا
آنا بھی غضب ہے ترا جانا بھی غضب ہے
شیدا# یہ صنم خانہ ہے دل رکھئے چھپا کر
ہر سنگ کو آئینہ دکھانا بھی غضب ہے
لوگوں نے کر دیا اسے آخر میں سنگ سار
یہ پیڑ بڑھ کر ہو گیا پھل دار صحن میں
نفرت کے کاروبار کا کرنے کومول تول
کچھ لوگ کھول بیٹھے ہیں بازار صحن میں
شہر سے گاؤں تلک رقص شرر کا منظر
نئی تہذیب کا دلدوز تماشہ دیکھو
جانے کس مرحلہ شوق میں آپہنچا ہوں
خامشی ہی میری گفتار ہوئی جاتی ہے
ستم میں بھی تکلف کر رہے ہیں آج وہ شاعر
تڑپ بڑھ کر میری وجہ سکون دل نہ بن جائے
نہ ملا کچھ سراغ ہستی کا
مدتوں سے بھٹک رہے ہیں ہم
لوگ ہیں منتظر قیامت کے
اور تری راہ تک رہے ہیں ہم
یوں تو شیدا چینی مشاعروں تک محدود رہے اور انہوں نے اشاعت کی جانب توجہ نہیں دی لیکن انہیں یہ احساس ضرور رہا:
اس میں تو شک نہیں ہے کہ تاریخ ساز ہوں
شیدا یہ او ربات ہے میں بے نیاز ہوں