خواجہ حیدر علی آتش کی ایک غزل
خشمگیں آنکھیں تمہاری آفت جان ہو گئیں
برچھیاں عاشق کشی کرنے کو مڙگاں ہو گئیں
تم جو جا نکلے نسیم نو بہاری کی طرح
پھول کھل کھل کر گل و لالہ کی کلیاں ہو گئیں
اے صبا دامن ہے تیرا اور مجھ مجنوں کا ہاتھ
اس پری رو کی اگر زلفیں پریشاں ہو گئیں
سامنے رہنے لگا رخسارۂ زیبایۓ یار
صورت آئینہ آنکھیں اپنی حیراں ہو گئیں
مہندی ہاتھوں میں ملی تو نے جو اے دریاۓ حسن
انگلیاں رنگ حنا سے شاخ مرجاں ہو گئیں
راستی سے نیزہ ترکان بنا بالاۓ یار
وہ بھویں اپنی کجی سے تیغ عریاں ہو گئیں
خانہ دل میں تصور خوش جمالوں کا رہا
گاہ حوریں، گاہ پریاں، اپنی مہماں ہو گئیں
کوچہ کر دی میں دکھائی تیغ قاتل نے بہار
بسملوں سے شہر کی گلیاں گلستاں ہو گئیں
دیدۂ عاشق سے جس نے دیکھا دیوانہ ہوا
حسن سے پریاں بلاۓ جان انساں ہو گئیں
اے مراد دل ترے کوچے میں رکھتے ہی قدم
حسرتیں جو کچھ کہ تھیں گرد پریشاں ہو گئیں
یہ کھلا آتش عناصر سے دل دیوانہ کو
چار دیواریں اکٹھی ہو کے زنداں ہو گئیں