آوارہ - مجاز لکھنوی
شہر کی رات اور میں نا شاد و نا کارہ پھروں
جگمگاتی، جاگتی سڑکوں پہ آوارہ پھروں
غیر کی بستی ہے کب تک دربدر مارا پھروں
اے غم دل کیا کروں، اے وحشت دل کیا کروں
جھلملاتے قمقموں کی راہ میں زنجیر سی
رات کے ہاتھوں میں دن کی موہنی تصویر سی
میرے سینے پر مگر دہکی ہوئی شمشیر سی
اے غم دل کیا کروں، اے وحشت دل کیا کروں
یہ رو پہلی چھاؤں، یہ آکاش پر تاروں کا جال
جیسے صوفی کا تصور، جیسے عاشق کا خیال
آہ لیکن کون جانے، کون سمجھے جی کا حال
اے غم دل کیا کروں، اے وحشت دل کیا کروں
پھر وہ ٹوٹا اک ستارہ پھر وہ چھوٹی پھلجھڑی
جانے کس کی گود میں آئی یہ موتی کی لڑی
ہونک سی سینے میں اٹھی چوٹ سی دل پر پڑی
اے غم دل کیا کروں، اے وحشت دل کیا کروں
رات ہنس ہنس کے یہ کہتی ہے کہ میخانے میں چل
پھر کسی شہناز لالہ رخ کے کاشانے میں چل
یہ نہیں ممکن تو پھر اے دوست ویرانے میں چل
اے غم دل کیا کروں، اے وحشت دل کیا کروں
راستے میں رک کے دم لے لوں مری عادت نہیں
لوٹ کر واپس چلا جاؤں مری فطرت نہیں
اور کوئی ہمنوا مل جائے یہ قسمت نہیں
اے غم دل کیا کروں، اے وحشت دل کیا کروں
منتظر ہے ایک طوفان بلا میرے لیے
اب بھی جانے کتنے دروازے ہیں وا میرے لیے
پر مصیبت ہے، مرا عہد وفا میرے لیے
اے غم دل کیا کروں، اے وحشت دل کیا کروں
جی میں آتا ہے کہ اب عہد وفا بھی توڑ دوں
ان کو پا سکتا ہوں میں یہ آسرا بھی چھوڑ دوں
ہاں مناسب ہے یہ زنجیر ہوا بھی توڑ دوں
اے غم دل کیا کروں، اے وحشت دل کیا کروں
اک محل کی آڑ سے نکلا وہ پیلا مہتاب
جیسے ملا کا عمامہ، جیسے بنیے کی کتاب
جیسے مفلس کی جوانی، جیسے بیوہ کا شباب
اے غم دل کیا کروں، اے وحشت دل کیا کروں
دل میں اک شعلہ بھڑک اٹھا ہے، آخر کیا کروں
میرا پیمانہ چھلک اٹھا ہے، آخر کیا کروں
زخم سینے کا مہک اٹھا ہے، آخر کیا کروں
اے غم دل کیا کروں، اے وحشت دل کیا کروں
جی میں آتا ہے یہ مردہ چاند تارے نوچ لوں
اس کنارے نوچ لوں اور اس کنارے نوچ لوں
ایک دو کا ذکر کیا، سارے کے سارے نوچ لوں
اے غم دل کیا کروں، اے وحشت دل کیا کروں
مفلسی اور یہ مظاہر ہیں نظر کے سامنے
سینکڑوں سلطان جابر ہیں نظر کے سامنے
سینکڑوں چنگیز و نادر ہیں نظر کے سامنے
اے غم دل کیا کروں، اے وحشت دل کیا کروں
لے کے اک چنگیز کے ہاتھوں سے خنجر توڑ دوں
تاج پر اس کے دمکتا ہے جو پتھر توڑ دوں
کوئی توڑے یا نہ توڑے میں ہی بڑھ کر توڑ دوں
اے غم دل کیا کروں، اے وحشت دل کیا کروں
بڑھ کر اس اندرسبھا کا ساز و سامان پھونک دوں
اس کا گلشن پھونک دوں، اس کا شبستان پھونک دوں
تخت سلطاں کیا، میں سارا قصر سلطاں پھونک دوں
اے غم دل کیا کروں، اے وحشت دل کیا کروں