عید چپ چاپ دبے پاؤں گزر جاۓ گی
اپنے سیلاب زدگان بھائیوں اور بہنوں کے نام
اس کے دل پہ بھی اداسی کی گھٹا چھاۓ گی
دور تک جب اسے ویرانی نظر آۓ گی
شہرـ خاموش کو دیکھے گی تو ڈر جاۓ گی
کیا ہوا ؟ کیسے ہوا ؟ کچھ نہ سمجھ پاۓ گی
عید چپ چاپ دبے پاؤں گزر جاۓ گی
کتنے مجبور کسانوں کے چمن ڈوب گئے
کتنے معصوم ، جوانوں کے بدن ڈوب گئے
لہلہاتے ہوئے وہ کھیت ، مویشی، وہ اناج !
بستیاں ڈوب گئیں ، اہل ـ وطن ڈوب گئے
جب کہیں سے بھی نہ ہسنے کی صدا آۓ گی
عید چپ چاپ دبے پاؤں گزر جاۓ گی
ڈاکٹر سکندر شیخ مطرب
0 comments