مولانا روم
مولانا روم کا نام ایک ایسا نام ہے جس پر فارسی زبان کو اسی طرح ناز ہے جس طرح اردو کو غالب پر، پنجابی کو وارث شاہ پر اور انگریزی کو شیکسپیر پر- مولانا روم نے بہت سی کتابیں لکھ کر فارسی زبان کا دامن مالا مال کیا تا ہم ان کی کتابوں میں سب سے زیادہ شہرت 'مثنوی' کو ملی- علامہ شبلی نعمانی کے مطابق مثنوی میں دی گیی بہت سی روایات اور حکایات غلط ہیں لیکن اس زمانے سے لے کر اب تک بہت سے لوگ ان کو درست مانتے چلے آ رہے ہیں- ان حکایات سے مولانا نے کئی نتیجے نکالے ہیں- اسلیۓ اگر ان روایات کو نکال دیا جایے تو مثنوی کی عمارت بے ستوں رہ جاتی ہے- اپنی حکایتوں سے مولانا نے بہت سی باتیں سمجھانے کی سعی کی ہے- ان میں سے کچھ حکایات بچوں کی کہانیوں کی صورت اختیار کر چکی ہیں اور بہت سی روایات لوک کہانیوں کا درجہ اختیار کر گئی ہیں- مختصر روایات سنیۓ-
چار افراد سفر میں اکٹھے تھے- کسی نے چاروں کو ایک سکہ دے دیا- ایرانی کہنے لگا اسکے انگور منگوا لو- عرب بولا اس سکے سے عنب خریدو ، ترک بولا اس کے روزم لو جب کہ رومی نے کہا اس کے بدلے میں امتناخیل خریدو- چاروں ایک دوسرے کی زبان سے نا واقف تھے اس لیے لڑنے لگے- اگر کوئی زبان دان ہوتا تو انہیں انگور لا دیتا کیوں کہ وہ سب اپنی اپنی زبان میں ایک ہی بات کہہ رہے تھے- یوں ان میں جھگڑا نہ ہوتا-
دوسری حکایت یوں ہے-
حضرت موسی کا ایک جگہ سے گزر ہوا تو وہاں ایک چرواہے کو دیکھا کہ خدا سےمخاطب ہو کر کہہ رہا ہے "اے خدا تو کہاں ہے، اگر تو میرے پاس ہوتا تو میں تیرے بالوں میں کنگھی کرتا، تیرے کپڑوں سے جوئیں نکالتا اور تجھے مزے مزے کے کھانے کھلاتا-" یہ سن کر حضرت موسی طیش میں آ کر اسے مارنے لگے تو وہ بھاگ نکلا اور حضرت موسی پر وحی نازل ہوئی کہ ہر کوئی مجھےاپنے ذہن ہی کے حوالے سے پہچانتا ہے اور اس معاملے میں تم کو حق نہیں پہنچتا کے کسی کو سزا دو-
دنیا بھر سے بہت سے شعراء جن میں علامہ اقبال بھی شامل ہیں، نے مولانا روم سے کسب فیض کیا ہے- علامہ صاحب کا مشہور شعر ہے-
تو بھی ہے اسی قافلہ شوق میں اقبال
جس قافلہ شوق کا سالار ہے رومی
علامہ، پیر رومی کی شخصیت کو ایک پر آشوب سمندر ہی قرار نہیں دیتے، ان کے اسرار کو بھی جاننا چاہتے ہیں-
ہم خوگر محسوس ہیں ساحل کے خریدار
ایک بحر پر آشوب و پراسرار ہے رومی
آج اگرچہ پاکستان اور ہندوستان میں فارسی زبان کے اثرات ختم ہوتے چلے جا رہے ہیں لیکن مولانا روم کے بہت سے اشعار اور تراکیب آج بھی بزرگوں کی زبان سے سنے جا سکتے ہیں-
بشنواز نے چوں حکایت می کند
در جدائی ہا شکایت می کند
خوشتر آں باشد کہ سر دلبراں
گفتہ آید در حدیث دیگراں