ویسا کہاں ہے ہم سے، جیسا کہ آگے تھا تو - میر تقی میر
ویسا کہاں ہے ہم سے، جیسا کہ آگے تھا تو
اوروں سے مل کے پیارے کچھ اور ہو گیا تو
چالیں تمام بے ڈھب، باتیں فریب ہیں سب
حاصل کہ اے شکر لب! اب وہ نہیں رہا تو
جاتے نہیں اٹھاے یہ شور ہر سحر کے
یا اب چمن میں بلبل، ہم ہی رہیں گے یا تو
آ ابر ایک دو دم آپس میں رکھیں صحبت
کڑھنے کو ہوں میں آندھی، رونے کو ہے بلا تو
تقریب پر بھی تو تو پہلو تہی کرے ہے
دس بار عید آئی کب کب گلے ملا تو
تیرے دہن سے اس کو نسبت ہو کچھ تو کہیے
گل گو کرے ہے دعویٰ خاطر میں کچھ نہ لا تو
گفت و شنود اکثر میری تری رہے گی
ظالم معاف رکھیو میرا کہا سنا تو
کہہ سانجھ کے مویے کو اے میر روئیں کب تک
جیسے چراغ مفلس اک دم میں جل بجھا تو
0 comments