نہ تم کو ہے ، نہ ہم کو ہے
شاعر : اختر علی خان اخترؔ چھتاروی
شکیبِ دل، کسی عنواں ، نہ تم کو ہے ، نہ ہم کو ہے
یہاں ، آسودگیِ جاں ، نہ تم کو ہے ، نہ ہم کو ہے
ہوئی جاتی ہے ، راہِ دوست ویراں ، اہلِ دل ٹھیرو
موافق، صرصرِ دوراں ، نہ تم کو ہے ، نہ ہم کو ہے
اسیرِ مطلب و طالب، طلب، مطلوب ہیں ، ہم تم
مگر مطلوب یہ زنداں ، نہ تم کو ہے ، نہ ہم کو ہے
میسّر کیسے ، اُس محمل نشیں کا، قرب ہو آخر
شعورِ لذّتِ ہجراں ، نہ تم کو ہے ، نہ ہم کو ہے
کسی در پر، پڑے رہنے کی، گنجائش نہیں دل میں
دماغِ منّتِ درباں ، نہ تم کو ہے ، نہ ہم کو ہے
نقابِ رُخ کی رنگینی کے شیدا، تم بھی، اور ہم بھی
شہودِ پیدا و پنہاں ، نہ تم کو ہے ، نہ ہم کو ہے
اطاعت اور گنہگاری، یہ سب ہیں ہوش کی باتیں
سرورِ سرمدِ قرآں ، نہ تم کو ہے ، نہ ہم کو ہے
فقط لَا حَول سے ملتا نہیں ، شیطاں سے چھٹکارا
تمیزِ طینتِ شیطاں ، نہ تم کو ہے ، نہ ہم کو ہے
ہمیں کیا خضرؑ سے لینا، بقا اپنی، فنا میں ہے
مُہیّا، چشمۂ حیواں ، نہ تم کو ہے ، نہ ہم کو ہے
غمِ انساں میں اِک دن بھی، نہ تم روئے ، نہ ہم روئے
قیاسِ عظمتِ انساں ، نہ تم کو ہے ، نہ ہم کو ہے
زمانہ، بر سرِ پیکار، لگتا ہے ، ہمیں ، اخترؔ
زمانہ کیا ہے ؟ یہ وجداں ، نہ تم کو ہے ، نہ ہم کو ہے
---------------------
پیشکش
سعید جاوید مغل