اُلفت کے آداب مجھے آتے آتے آئیں گے
ہم تو ڈبو کر کشتی کو، خود ہی پار لگائیں گے
طُوفاں سے گر بچ نکلی، ساحل سے ٹکرائیں گے
کہہ تو دیا، اُلفت میں ہم جان کے دھوکا کھائیں گے
حضرتِ ناصح!خیر تو ہے، آپ مجھے سمجھائیں گے؟
یہ تو سب سچ ہے مجھ پر آپ کرم فرمائیں گے
لیکن اتنا دھیان رہے، لوگ بہت بہکائیں گے
عشق کی نظروں سے چھُپنا ، کھیل نہیں، آسان نہیں
مجھ کو جِلو میں پائیں گے، آپ جہاں بھی جائیں گے
چھوڑئیے اُس کی حالت پر دل کو، دل دیوانہ ہے
آپ کہاں تک ایسے کی غمخواری فرمائیں گے؟
ناکامی بیکار نہیں، رُسوائی کام آئے گی
ان ہی چند لکیروں سے افسانے بن جائیں گے
اُن کے آتے ہی میں نے دل کا قصہ چھیڑ دیا
اُلفت کے آداب مجھے آتے آتے آئیں گے
تیرے میخانے کی قسم، بے مانگے مل جاتا ہے
تیرے ہوتے اے ساقی! ہاتھ کہاں پھیلائیںگے؟
اب میں اُس منزل میں ہوں، جس میں دعا کرنا ہے گناہ
کچھ نہ زباں سے نکلے گا، ہاتھ اگر اُٹھ جائیں گے
تُو برباد، جہاں ناخوش، وہ بھی کچھ بیزار سے ہیں
ہم جو اے دل! کہتے تھے، نالے راس نہ آئیں گے!
اُس نے آنے والوں کا بڑھ کر استقبال کیا
شمع کو یہ معلوم نہ تھا، پروانے جل جائیں گے
میرے سیہ خانے میں کوئی، دلچسپی کی چیز نہیں
آپ کو فرصت ہی کب ہے، آپ یہاں کیوں آئیں گے!
اک دن میری آنکھوں میں ماہر آنسو بھر آئے
غربت گھبرا کر بولی، آپ وطن کب جائیں گے؟
ماہر ا لقادری