for ur information bout Cats
صحيح بخارى اور صحيح مسلم ميں عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے حديث ثابت ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" ايك عورت كو بلى كى بنا پر عذاب ديا گيا، اس عورت نے بلى كو باندھ ديا حتى كہ وہ مر گئى وہ اسے نہ تو كھانے كے ليے كچھ ديتى اور نہ ہى پينے كے ليے، اور نہ ہى اسے چھوڑا كہ وہ زمين كے كيڑے مكوڑے كھائے، تو وہ عورت بلى كى وجہ سے آگ ميں داخل ہو گئى "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 3223 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1507 ).
اور بلى اگر كھانے ميں سے كچھ كھا جائے، يا پانى پى جائے تو وہ پليد اور نجس نہيں ہو جاتا، كيونكہ ابوداود وغيرہ ميں حديث ہے:
ايك عورت نے عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كو ہريسہ بھيجا تو وہ نماز پڑھ رہى تھيں، انہوں نے نماز ميں ہى اشارہ كيا كہ وہ اسے ركھ دے، تو بلى آئى اور آكر اس ميں سے كھا گئى، عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا نے نماز كے بعد اسى جگہ سے ہريسہ كھايا جہاں سے بلى نے كھايا تھا، اور فرمايا: بلا شبہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" يہ ( بلى ) پليد اور نجس نہيں، بلكہ يہ تو تم پر آنے جانے والياں ہيں"
عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں: ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو بلى كے بچے ہوئے پانى سے وضوء كرتے ہوئے ديكھا "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 69 ).
اور ايك روايت ميں ہے:
كبشہ بنت كعب بن مالك جو كہ ابن ابى قتادہ كى بيوى ہيں وہ بيان كرتى ہيں كہ ابو قتادہ رضى اللہ تعالى عنہ ہمارے گھر آئے تو ميں نے ان كے وضوء كے ليے پانى برتن ميں ڈالا تو بلى آئى اور اس سے پينے لگى، تو انہوں نے اس كے ليے برتن ٹيڑھا كر ديا حتى كہ اس نے پانى پى ليا.
كبشہ بيان كرتى ہيں كہ انہوں نے مجھے ديكھا كہ ميں ان كى طرف ديكھے جارہى ہوں تو وہ فرمانے لگے:
ميرى بھتيجى كيا تم تعجب كر رہى ہو ؟
تو ميں نے جواب ديا: جى ہاں.
تو وہ كہنے لگے: رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا ہے:
" يہ نجس اور پليد نہيں، بلكہ يہ تو تم پر گھومنے پھرنے والياں ہيں "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 68 ).
ان دونوں روايتوں كو امام بخارى اور دار قطنى وغيرہ نے صحيح كہا ہے.
ديكھيں: التلخيص ابن حجر ( 1 / 15 ).
قولہ: " تم پر آنے جانے اور گھومنے پھرنے والياں ہيں "
اس كا معنى يہ ہے كہ يہ خادموں كے مشابہ ہيں، جو تمہارى خدمت كرتے ہيں، اور وہ لوگوں كے ساتھ ہى ان كے گھروں ميں رہتے ہيں، اور ان كے برتنوں اور سامان كے پاس ہوتے ہيں، اس سے ان كا بچنا ممكن نہيں.
اس ليے جب كوئى بلى كسى برتن سے پى جائے، يا كچھ كھا جائے تو وہ نجس اور پليد نہيں ہو جاتا، اس كے مالك كو اختيار ہے كہ اگر اس كا دل چاہے اور اسے ضرورت ہو تو وہ اسے كھا اور پى سكتا ہے، كيونكہ وہ پاك اور طاہر ہے، ليكن اگر اس كا ضرر اور نقصان ثابت ہو جائے تو پھر نہيں، اور اگر اس كا دل نہ چاہے تو وہ اسے نہ كھائے اور پيئے اور چھوڑ دے.
الحمد للہ اللہ كا شكر ہے جس نے ہميں اسلام سے نوازا اور عزت وتكريم دى، اور ہميں باقى سارى امتوں پر امتياز عطا فرمايا.
اسى طرح اس پر بھى متنبہ رہنا چاہيے كہ شريعت اسلاميہ ميں بليوں كى خريد و فروخت منع ہے.
صحيح مسلم ميں ابو زبير رحمہ اللہ سے حديث مروى ہے وہ كہتے ہيں كہ ميں نے جابر رضى اللہ تعالى عنہ سے كتے اور بلى كى قيمت كے متعلق دريافت كيا تو وہ كہنے لگے:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس سے ڈانٹا ہے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 2933 ).