Albert Einstein (Urdu)

اس کو ا سکول سے خارج کر دیا گیا تھا
پروفیسر البرٹ آئن سٹائن (1879-1955) نے بیسویں صدی کی سائنس میں عظیم انقلاب برپا کیا۔ مگر اس کی زندگی کا آغاز نہایت معمولی تھا۔ تین سال کی عمر تک وہ بولنا شروع نہ کرسکا۔ بظاہر وہ ایک معمولی باپ کا معمولی بچہ تھا۔ نو سال کی عمر تک وہ بالکل عام بچہ دکھائی دیتا تھا۔ ا سکول کی تعلیم کے زمانے میں ایک بار وہ ا سکول سے خارج کر دیا گیا۔ کیوں کہ اس کے استادوں کا خیال تھا کہ اپنی تعلیمی نا اہلی کی وجہ سے وہ دوسرے طالب علموں پر برا اثر ڈالتا ہے ۔ زیورک کے پالی ٹیکنک میں اس کو پہلی بار داخلہ نہ مل سکا کیوں کہ آزمائشی امتحان میں اس کے نمبر بہت کم تھے ۔ چنانچہ اس نے مزید تیاری کر کے اگلے سال داخلہ لیا۔ اس کے ایک استاد نے اس کے بارے میں کہا:
Albert was a lazy dog.
البرٹ ایک سست کتا تھا۔
20 سال عمر تک البرٹ آئن سٹائن میں کوئی غیرمعمولی آثار نظر نہ آتے تھے ۔ مگر اس کے بعد اس نے محنت شروع کی تو وہ اس بلندی تک پہنچا جو موجودہ زمانے میں بمشکل کسی دوسرے سائنسدان کو حاصل ہوئی۔ اسی بنا پر اس کے ایک سوانح نگار نے لکھا ہے:
We could take heart that it is not necessary
to be a good student to become Einstein.
(ہم کو جاننا چاہیے کہ آئن سٹائن بننے کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ آدمی طالب علمی کے زمانے میں ممتاز رہا ہو۔)
آئن سٹائن نے اپنی پہلی سائنسی کتاب اُس وقت شائع کی جب کہ اس کی عمر 26 سال تھی۔ اس کے بعد سے اس کی شہرت بڑ ھتی ہی چلی گئی۔ آئن سٹائن کی زندگی بالکل سادہ تھی۔ وہ نہایت سادہ غذا کھاتا تھا۔ وہ اکثر آدھی رات تک اپنے کام میں مشغول رہتا تھا۔ اس کو اسرائیل کی صدارت پیش کی گئی تھی مگر اس نے انکار کر دیا۔ اس کا کہنا تھا کہ سیاست انسانیت کا کینسر ہے ۔ 1933 میں اس نے ہٹلر کے جرمنی کو چھوڑ دیا تھا۔ ہٹلر کی حکومت نے اعلان کیا کہ جو شخص آئن سٹائن کا سر کاٹ کر لائے گا اس کو 20 ہزار مارک انعام دیا جائے گا۔ اس زمانے میں یہ رقم بہت زیادہ تھی۔ مگر آئن سٹائن کی عظمت لوگوں کے دلوں پر اتنی قائم ہو چکی تھی کہ کوئی اس انعام کو حاصل کرنے کی جرأت نہ کرسکا۔
تاریخ میں اس طرح کی بہت مثالیں ہیں جو بتاتی ہیں کہ بڑ ا انسان بننے کے لیے بڑ ا بچہ پیدا ہونا ضروری نہیں ۔ معمولی حیثیت سے آغاز کر کے آدمی بڑ ی بڑ ی کامیابیاں حاصل کرسکتا ہے ، بشرطیکہ وہ جدوجہد کی شرطوں کو پورا کرے ۔ بلکہ وہ لوگ زیادہ خوش قسمت ہیں جن کو مشکل مواقع میں زندگی کو ثبوت دینا پڑ ے ۔ کیونکہ مشکل حالات عمل کا محرک ہوتے ہیں ۔ وہ آدمی کے اندر چھپی ہوئی صلاحیتوں کو بیدار کرتے ہیں ۔ نیز زندگی کے بہترین سبق ہمیشہ مشکل حالات میں ملتے ہیں ۔ اعلیٰ انسان راحتوں میں نہیں بلکہ مشکلوں میں تیار ہوتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ خدا کی اس دنیا میں امکانات کی کوئی حد نہیں ۔ یہاں کسی کو اپنے عمل کے لیے معمولی آغاز ملے تو اس کو مایوس نہیں ہونا چاہیے ۔ معمولی حالات زندگی کا سب سے مضبوط زینہ ہیں ۔ تاریخ کی اکثر اعلیٰ ترین کامیابیاں معمولی حالات ہی کے اندر سے برآمد ہوئی ہیں ۔