عزیز لکھنوی کے چند اشعار
اک نگہ نے تیری طے کی صورت امید و بیم
سارا جھگڑا مٹ گیا تدبیر اور تقدیر کا
عزیز لکھنوی لکھنؤ کے قدیم رنگ تغزل کی آخری یاد گار تھے- شاعری میں اپنا مخصوص رنگ برقرار رکھتے ہویے میر اور غالب کی پیروی کرتے تھے- جوش ملیح آبادی اور اثر لکھنوی, عزیز کے شاگردوں میں سے ہیں- اکبر الہ آبادی اور علامہ اقبال جیسے اکابرین ان کی شاعرانہ عظمت کے قائل تھے اور ان کےمداح بھی- اقبال اپنے ایک خط میں عزیزکو انکے کلام پر تبصرہ کرتے ہویے یوں لکھتے ہیں-
"میں آپ کے کلام کو ہمیشہ بنظر استفادہ دیکھتا ہوں-
اپنے مرکز کی طرف مائل پرواز تھا حسن
بھولتا ہی نہیں عالم تری انگڑائی کا
سبحان الله یہ بات ہر کسی کو نصیب نہیں، موجودہ ادبیات اردو کی نظر حقایق پر ہے اور یہ مجموعہ غزلیات اس نئی تحریک کا بہترین ثبوت ہے- آپ کے کلام کی جدت حیرت انگیز ہے-"
عزیز لکھنوی کے چند اشعار پیش خدمت ہیں-
عہد میں تیرے ظلم کیا نہ ہوا
خیر گزری کہ تو خدا نہ ہوا
الجھن کا علاج آہ کوئی کام نہ آیا
جی کھول کے رویا بھی تو آرام نہ آیا
قفس میں جی نہیں لگتا ہے آہ پھر بھی مرا
یہ جانتا ہوں کہ تنکا بھی آشیاں میں نہیں
بلا سے کوئی مر جایے بلا سے کوئی رسوا ہو
اگر ہے امتحاں منظور تو کیا خوف رسوائی
علاج داغ سے کرتا ہے سعی کاوش ناخن
مقدر سے ملا ہے چارہ گر بھی مجھ کو سودائی
اب نیلگوں ہے چہرہ مگر پہلے زرد تھا
انجام درد یہ ہے وہ آغاز درد تھا
مدت کے بعد چھوٹ کے زندان سے جب چلا
پیش نگاہ سب کے بیابان گرد تھا
ایک آبادی پامال ہے یہ دشت جنوں
کاش ہر گوشہ میں ہوتا کوئی ویرانہ جدا
کوئی مریض غم کا دم واپسیں نہیں
ایک جان ہے سو وہ بھی کہیں ہے کہیں نہیں
فیصل حنیف