میر انیس
عمر گزری ہے اس دشت کی سیاہی میں
پانچویں پشت ہے شبیر کی مداحی میں
بلا شبہ میر انیس کے کلام میں وہ تمام خوبیاں موجود ہیں جو اس زمانے کے غزل گو شعراء کے کلام میں تھیں- اگر ان کے لکھے ہویے مرثیوں کو مذہب سے ہٹ کر روایتی ادبی معیار پر پرکھا جایے تو ان کے اس دعوے سے اتفاق کیے بغیر نہیں بنتی-
گلدستہ معنی کو نۓ ڈھنگ سے باندھوں
اک پھول کا مضمون ہو تو سو رنگ سے باندھوں
میر انیس کی چند تشبیہات ملاحظه ہوں- ایسی نادر تشبیہات شاید ہی کسی اور شاعر کے ہاں ملیں-
یوں برچھیاں تھیں چار طرف اس جناب کے
جیسے کرن نکلتی ہے گرد آفتاب کے
کہتی تھی یہ زرہ بدن بد خصال میں
پکڑا ہے پیل مست کو لوہے کے جال میں
دو سانپ گتھ گیے تھے زبانیں نکال کے
ذرا دیکھیے ذیل کے شعر میں وہ کیسے اپنے زور کلام سے دن کو رات بناتے دکھائی دیتے ہیں-
وہ لو وہ آفتاب کی حدت، وہ تاب و تب
کالا تھا رنگ دھوپ سے دن کا مثال شب
نمود صبح کا ایک منظر ملاحظہ فرمائیں- صبح کی ٹھنڈی ہوا کو آپ اپنے بدن پر محسوس کریں گے-
وہ سرخی شفق کی ادھر چرخ پر بہار
وہ بارور درخت، وہ صحرا وہ سبزہ زار
شبنم کے وہ گلوں پہ گہر ہاۓ آبدار
پھولوں سے سب بھرا ہوا دامن کوہسار
نافے کھلے ہویے وہ گلوں کی شمیم کے
آتے تھے سرد سرد وہ جھونکے نسیم کے
میر انیس کی ایک اور خوبی انکی سادگی اور سلاست ہے- اگرچہ انکے کلام میں عربی اور فارسی کے الفاظ کثیر تعداد میں ہیں لیکن یہ سب الفاظ وہی ہیں جو ہماری روز مرہ زندگی میں مستعمل ہیں- چناچہ انکے کلام کو سمجھنا کسی کیلیے بھی دشوار نہیں- ان کا کلام فصاحت و بلاغت کا ایک عمدہ نمونہ ہے-
ہے نمک خوان تکلم سے فصاحت میری
ناطقے بند ہیں سن سن کے بلاغت میری
رنگ اڑتے ہیں وہ رنگین ہے عبارت میری
شور جس کا ہے وہ دریا ہے طبیعت میری
ایک قطرہ کو جو میں چاہوں تو قلزم کر دوں
بحر موج فصاحت میں تلاطم کر دوں
میر انیس کے کلام میں جذبات نگاری ملاحظه ہو- عبّاس زخمی ہو کر زندگی کی آخری منزل پر ہیں- امام حسین سرہانے تشریف رکھتے ہیں- آپ کی تنہائی اور بیکسی کا خیال کر کےعبّاس فرمانے لگتے ہیں-
دنیا سے کوچ کرنے کو جی چاہتا نہیں
اے بھائی جان مرنے کو جی چاہتا نہیں
فیصل حنیف