سہل ممتنع
سہل ممتنع
چھوٹی بحر میں بڑی بات کہہ جانا یا ایسی بات کہنا جس کے معنی بظاھر سادہ ہوں لیکن غور کرنے پر زیادہ وسعت نظر آیے، کو سہل ممتنع کہتے ہیں- اس معاملے میں میر تقی میر کو سب سے بالا مقام دیا جاتا ہے لیکن اردو میں دیگر کئی شاعروں کے ہاں بھی سہل ممتنع کا عنصر کافی ملتا ہے- گہری اور بھرپور بات مختصر الفاظ میں کہنا بہت مشکل کام ہے اور یہ ماہرین فن ہی کر سکتے ہیں- میر کے ہاں سادگی اور سلاست کا عنصر کافی زیادہ ہے- سہل ممتنع ان کا خاص فن ہے- سادہ اور چھوٹے سے شعر میں بڑی بڑی بات کہہ جاتے ہیں-
اس میں راہ سخن نکلتی تھی
شعر ہوتا ترا شعار اے کاش
سہل ممتنع اور چھوٹی بحروں میں کچھ اشعار ملاحظہ کیجیۓ-
جان تم پر نثار کرتا ہوں
میں نہیں جانتا دعا کیا ہے
آگے آتی تھی حال دل پر ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی
غالب
بس یہی کام سب کو کرنا ہے
یعنی جینا ہے اور مرنا ہے
سانس لیتے ہویے بھی ڈرتا ہوں
یہ نہ سمجھیں کہ آہ کرتا ہوں
اکبر
آنکھیں تھیں کہ دو چھلکتے ساغر
عارض کہ شراب تھر تھرایے
شہر میں شور، گھر میں تنہائی
دل کی باتیں کہاں کرے کوئی
ناصر کاظمی