فلمی شاعری اور عبد الحکیم
بمبئی میں بھنڈی بازار کے چوراہے پر وزیر ریستوران ایک زمانے میں شعرا اور ادبا کا ملتقیٰ رہا ہے وزیر بلڈنگ کے نیچے شعرا کی بھیڑ رہتی تھی جن میں اکثر فلموں میں گانے لکھنے کے چکر میں اپنا سب کچھ چھوڑ کر آ جاتے تھے۔کچھ شاعر قوالوں کے لئے بھی لکھنے لگتے تھے جن کا جمگھٹا اسی ریستوراں میں رہتا تھا۔ ان میں کچھ مشہور ہوئے کچھ نے پیسے کمائے اور کچھ اپنی زندگی کے قیمتی سال ضائع کرکے اللہ کو پیارے ہو گئے۔ فلمی گانوں کے لکھنے میں ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ دھن پہلے بنائی جاتی تھی اور شاعر کو میٹر دے دیا جاتا تھا جس پر اسے بول لکھنے ہوتے تھے۔ اکثر شعرا میٹر ذہن میں لئے چائے کی پیالی اور سگریٹ کے دھویں کے مرغولوں میں مکھڑا تلاش کرتے نظر آتے تھے۔ اکثر وہ اپنے "اچھے مصرعوں" کو کھینچ تان کے میٹر پر فٹ کرنے میں کوشاں نظر آتے تھے۔ انہی میں ایک تھے عبد الحکیم جو عموما” میٹر پر اپنا مصرعہ چپکانے میں ناکام رہتے تھے اور جس میں یہ صلاحیت نہ ہو اس کے فلموں میں گانے لکھنے کا امکان بھی معدوم ہو جاتا تھا۔ ایک دن جھلا کر دو شعر کہے اور فلمی شاعری سے توبہ کرلی۔ کہا:
الفاظ بھی ربڑ ہیں کہ کھنچ جائیں وقت پر
بیکا ر قا فئے کی طنا بیں نہ کھینچئے
یہ سر پھروں کا کام ہے اور آپ ہیں حکیم
بہتر یہی ہے آ پ ا سپغو ل بیچئے