بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی
شاعر : کفیل آزر
بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی
لوگ بےوجہ اداسی کا سبب پوچھیں گے
یہ بھی پوچھیں گے کہ تم اتنی پریشاں کیوں ہو
انگلیاں اٹھیں گی سوکھے ہوئے بالوں کی طرف
اک نظر دیکھیں گے گزرے ہوئے سالوں کی طرف
چوڑیوں پر بھی کئی طنز کیے جائیں گے
کانپتے ہاتھوں پہ بھی فقرے کسے جائیں گے
لوگ ظالم ہیں ہر اک بات کا طعنہ دیں گے
باتوں باتوں میں میرا ذکر بھی لے آئیں گے
ان کی باتوں کا ذرا سا بھی اثر مت لینا
ورنہ چہرے کے تاثر سے سمجھ جائیں گے
چاہے کچھ بھی ہو سوالات نہ کرنا ان سے
میرے بارے میں کوئی بات نہ کرنا ان سے
بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی
-------------------------------------------------------------------
پیشکش
سعید جاوید مغل
0 comments