حالی کی چند رباعیات
ہو عیب کی خو یا کہ ہنر کی عادت
مشکل سے بدلتی ہے بشر کی عادت
چھٹتے ہی چھٹے گا اس گلی میں جانا
عادت اور وہ بھی عمر بھر کی عادت
مرنے پہ مرے وہ روز و شب روئیں گے
جب یاد کریں گے مجھے تب روئیں گے
الفت پہ، وفا پہ، جاں نثاری پہ مری
آگے نہیں روۓ تھے تو اب روئیں گے
فرقت میں بشر کی رات کیونکر گزرے
اک خستہ جگر کی رات کیونکر گزرے
گزری نہ ہو جس بغیر یہاں ایک گھڑی
یہ چار پہر کی رات کیوں کر گزرے
یاد اسکی یہاں ورد مدام اپنا ہے
خالی نہ ہو جو کبھی وہ جام اپنا ہے
کس طرح نہ لیجئے کہ ہے نام اس کا
کس طرح نہ کیجۓ کہ کام اپنا ہے
0 comments