’جناح کا کوئی پڑپوتا نہیں‘
لیاقت مرچنٹ کے مطابق وہ پاکستان میں انیس سو چھیاسٹھ سے موجود ہیں اور مریم بائی کے نواسے ہیں اور جناح کی زندگی کے بارے میں کئی کتابیں لکھ چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ جناع کی جائیداد اور ٹرسٹ کے نگران ہیں مگر حکومت نے اس فیصلے کے بارے میں کبھی پوچھا نہیں نہ اور ہی رابطہ کیا۔
انہوں نے بتایا ’محمد علی جناح نے اپنی تحریری وصیت میں بھی اسلم جناح کے خاندان کا ذکر نہیں کیا اور وصیت میں تمام خاندان کا حصہ مقرر کردیا تھا، جس کے تحت بیٹی دینا واڈیا کے لیےدو لاکھ روپے چھوڑے۔ چار بہنوں رحمت بائی، مریم بائی، شیریں، فاطمہ اور بھائی احمد جناح کے لیے ماہانہ سو روپے تاحیات مقرر کیے۔ دینا واڈیا کو ابھی تک دو لاکھ روپے کا منافع بھیجا جاتا ہے۔‘
لیاقت مرچنٹ کے مطابق جائیداد کا اکثر حصہ وصیت کے مطابق تعلیمی اداروں کودیا گیا۔ جن میں اردو عربی کالج، ممبئی یونیورسٹی، پشاور یونیورسٹی، اسلامیہ کالج، سندھ مدرسہ، علی گڑھ یونیورسٹی کو بڑی بڑی رقومات دینے کو کہا تھا۔ ’جب علی گڑھ یونیورسٹی کی باری آئی تو پتہ چلا کہ بھارتی حکومت نے قانون تبدیل کردیا ہے اب یہ وہ ادارہ نہیں تھا جس کے لئے انہوں نے اپنے پیسے چھوڑے تھے۔ ہائی کورٹ نے فیصلہ کیا کہ پیسے بھارت نہ بھیجے جائیں اسی نام سے یہاں ادارہ بنایا جائے جو ضرورت مند طالب علموں کو اسکالرشپ فراہم کرے۔‘