الطاف حسین حالی کی غزل
الطاف حسین حالی کی غزل
فیصل حنیف
حالی کی وجہ شہرت ان کی نظموں یا پھر تنقید کے حوالے سے ہے لیکن حالی کی غزل بھی کسی سے کم نہیں ہے- یہ بات طے ہے کہ اگر حالی کے ذہن پر مصلح سوار نہ ہوتا تو ان کا شمار اردو کے دو چار بڑے غزل گوؤں میں ہوتا- حالی کا تغزل بہت سے اچھے شاعروں سے بڑھ کر ہے- اچھی اور عمدہ غزل کی تمام تر فنی خوبیاں اپنے لوازمات کے ساتھ حالی کا ہاں دکھائی دیتی ہیں- سادگی اور پرکاری میں بڑی بات کہنا جانتے ہیں- غالب کے انداز کی ہلکی سے بازگشت بھی کہیں کہیں دکھائی دے جاتی ہے- رنگینی بیان کے ساتھ ساتھ سادگی اور نزاکت کا امتزاج حسین انداز سے ان کے اشعار میں موجود ہے.
مولانا ابو الکلام آزاد لکھتے ہیں کہ خواجہ اکرام الله مرحوم نے دہلی کے ایک مشاعرے کا حال مجھے سنایا تھا، جس میں خواجہ حالی اور داغ دونوں شریک ہویے تھے- طرح تھی- "خبر کہاں"، "نظر کہاں"، داغ کی غزل مشہور ہے-
اس مبتدا کی دیکھیے نکلی خبر کہاں
مشاعرے میں سب غزلیں پڑھ چکے تھے- خواجہ صاحب اور داغ باقی رہ گیے تھے- پہلے شمع خواجہ صاحب کے سامنے آئی اور انہوں نے اپنی غزل سنائی
ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
اب ٹھیرتی ہے دیکھئیے جا کر نظر کہاں
ایک عمر چاہییے کہ گوارا ہو نیش_عشق
رکھی ہے آج لذت_زخم_جگر کہاں
حالی نشاط_نغمہ و مے ڈھونڈتے ہو اب
آۓ ہو وقت_صبح، رہے رات بھر کہاں
اکرام الله خان مرحوم کہتے تھے، غزل تمام مشاعرے پر چھا گئی اور مدح و تحسین کا ایسا ہنگامہ گرم ہوا کہ لوگوں نے خیال کیا اب داغ کے لیے کچھ نہیں رہا ہے- خود داغ نے کہا "اس غزل کے سننے کے بعد میری غزل خود میری نگاہ سے گر گئی، جی چاہتا ہےپرچہ چاک کر دوں"
١٨٩٢ میں حیدرآباد میں سر سید نے ایک مشاعرہ منعقد کیا اور تجویز یہ ہوئی کہ کسی خاص طرح کی پابندی نہ رکھی جایے- ہر شخص اپنا منتخب اور تازہ کلام سناے- داغ نے اپنی وہ غزل سنائی جو ان کے تیسرے دیوان مہتاب داغ میں ہے-
ادھر لا ہاتھ، مٹھی کھول، یہ چوری یہیں نکلی
داغ کی زبان، منتخب غزل اور پھر ان کے پڑھنے کا ہنگامہ خیز انداز، سارا مشاعرہ بیخود ہو گیا اور تعریف کرتے کرتے لوگوں کے گلے پھٹ گیے- اس کے بعد شمع خواجہ صاحب کے سامنے آئی- مولانا شبلی مرحوم کہتے تھے کہ میں پہلو میں بیٹھا تھا میں نے مجلس کا رنگ دیکھا تو خیال کیا کہ یہاں نئی شاعری کا رنگ جم نہیں سکتا اگر خواجہ صاحب نے اس طرح کی کوئی چیز سنائی تو یقیناً بے مزہ اور پھیکی محسوس ہوگی اور لوگ بے کیف ہو جائیں گے- میں نے ان کے کان میں کہا، آپ اپنے قدیم کلام میں سے کوئی چیز سنایئں- نئی شاعری کا یہ موقع نہیں- لیکن انہوں نے انکار کر دیا اور کہا جو کچھ ہو مگر "از قاعدہ نہ باید گزشت"
یہ حکیم علوی خان کا مشہور لطیفہ ہے جو محمد شاہ کا شاہی طبیب تھا- یعنی مریض بچے یا نہ بچے مگر علاج قواعد فن کے مطابق کرنا چاہیے- خواجہ صاحب کا مطلب یہ تھا کہ مشاعرے میں رنگ جمے یا نہ جمے مگر اپنا اصول نہیں چھوڑنا چاہیے- چنانچہ انہوں نے اپنی نئی قسم کی غزلوں میں سے یہ غزل پڑھی
ہے عارفوں کو حیرت اور منکروں کو سکتہ
ہر دل پہ چھا رہا ہے رعب جمال تیرا
مولانا شبلی لکھتے ہیں کے باوجود اسکے کہ ابھی ابھی داغ کی شوخ عاشقانہ غزل تمام مجلس میں تہلکہ مچا چکی تھی مگر ایسا معلوم ہوا جیسے جوش مدح و تحسین کی ایک نئی سرگرمی لوگوں میں ابھر آئی ہو- ہر شعر کی تعریف کی گئی- داغ نے کہا "مولانا، یہ آپ ہی کا حصہ ہے، اس رنگ میں آپ کا کوئی سہیم نہیں-"
دو مختصر غزلیں پیش کرتا ہوں
پیاس تیری بویے ساغر سے لذیذ
بلکہ جام آب کوثر سے لذیذ
لطف ہو تیری طرف سے یا عتاب
ہم کو ہے سب شہد و شکر سے لذیذ
ہے یہ تجھ میں کس کی بو باس اے صبا
بویے بید و مشک و عنبر سے لذیذ
قند سے شیریں تری پہلی نگاہ
دوسری قند مکرر سے لذیذ
------------
قلق اور دل کا سوا ہوگیا
دلاسا تمہارا بلا ہوگیا
دکھانا پڑے گا ہمیں زخم دل
اگر تیر ان کا خطا ہو گیا
وہ امید کیا جس کی ہو انتہا
وہ وعدہ نہیں جو وفا ہو گیا
سماں کل کا رہ رہ کے آتا ہے یاد
ابھی کیا تھا اور کیا سے کیا ہو گیا
سمجھتے تھے جس غم کو ہم جاں گزا
وہ غم رفتہ رفتہ غذا ہو گیا
نہ دے میری امید مجھ کو جواب
رہے وہ خفا گر خفا ہو گیا
ٹپکتا ہے اشعار حالی سے حال
کہیں سادہ دل مبتلا ہو گیا
----------------------------
گزرگاہ خیال فورم
http://guzergah-e-khayal.groups.live.com/