اردو کلاسیکی شاعری میں بہادر شاہ ظفر کا مقام

mathboy
By mathboy

Please see below the essay I presented last Thursday in Bahadur Shah Zafar seminar organised by Bazm-e-Urdu Qatar.

-----

اردو کلاسیکی شاعری میں بہادر شاہ ظفر کا مقام

فیصل حنیف

بیچ میں پردہ دوئی کا تھا جو حائل اٹھ گیا
ایسا کچھ دیکھا کہ دنیا سے مرا دل اٹھ گیا
اے ظفر کیا پوچھتا ہے بےگناہ و پر گناہ
اٹھ گیا اب تو جدھر دست قاتل اٹھ گیا

ابو ظفر سراج الدین بہادر شاہ ہندوستان کے آخری مغل بادشاہ اور کلاسیکی شعراء میں ایک خاص مقام رکھتے ہیں- بد قسمتی سے انھیں اردو شاعری میں وہ مقام نہیں ملا جو ملنا چاہے تھا- ان کی شاعرانہ عظمت کو نہ پہچانے جانے اور نہ سرہانے کی بہت سی وجوہات ہیں- اسکی وجہ آزاد کی پیدا کردہ غلط فہمی ہو یا حالی جیسے محتاط شاعر اور ادیب کی یاد گار غالب میں آزاد کے بیان کی تائید، یا پھر ١٨٥٧ کے بعد کے واقعات جن کی وجہ سے لوگ بادشاہ سے کسی قسم کا تعلق اور عقیدت رکھنے سے گھبراتے تھے- تذکرہ نگاروں اور نقادوں نے بہادر شاہ ظفر سے عجیب بے اعتنائی برتی اور انہیں مکمل نظر انداز کر دیا- آزاد کی آب حیات اور اور رام بابو سکسینہ کی 'تاریخ اردو ادب' جیسی کتابیں ظفر کے ذکر سے خالی ہیں- یہ باتیں ظفر کے شاعرانہ قد کو چھوٹا نہیں کرتیں- ایسا ہر دور میں ہوتا آیا ہے- مومن خان مومن کی مثال بھی کچھ ایسی ہے اور ماضی قریب میں جوش ملیح آبادی کے ساتھ بھی اسی طرح
کی نا انصافی ہوئی ہے

بہادر شاہ ظفر جس دور میں پیدا ہوئے وہ مغلیہ سلطنت کا انتہائی زوال کا دور تھا- اورنگ زیب عالمگیر
سے لیکر ظفر تک ١٣٠ سال کے عرصے میں ١٣ بادشاہ بدل چکے تھے- لیکن اس کے باوجود مغلیہ خاندان کی روایات اپنی جگہ پر تھیں- اہل علم اور اہل کمال کی اب بھی سرپرستی ایسے ہی کی جاتی تھی جیسے اکبر اور جہانگیر کے دور میں ہوتا تھا- بہادر شاہ ظفر نے ایک علمی اور ادبی ماحول میں پرورش پائی اور اپنے زمانے کے اہل علم اور اہل فن کی صحبت سے فیض یاب ہوۓ- ان کے ذاتی محاسن اور ذہانت نے ان کے شاعرانہ ذوق کو مزید جلا بخشی- ولی عہدی کے زمانے میں ہی شاہ ظفر اپنے علمی ذوق کی وجہ سے شہرت پا چکے تھے اور شعراء کی ایک کثیر تعداد ان سے وابستہ تھی

بہادر شاہ ظفر کو شعر گوئی سے ایک فطری تعلق تھا- ابتدا میں شاہ نصیر کے شاگرد تھے- کچھ عرصۂ کاظم حسین بے قرار سے بھی اصلاح لی اور آخر میں ذوق اور غالب کے شاگرد ہوئے - شاہ نصیر کی شاگردی سے ظفر کے کلام میں پختگی آ گئی- شاہ نصیر کی پیروی کرتے ہوۓ اور اپنا مخصوص رنگ قایم رکھتےہوۓ اپنے استاد سے کہیں آگے نکل گیے- ظفر نے سنگلاخ زمینوں میں بہت بڑی تعدار میں زوردار غزلیں کہی ہیں- چونکہ ذوق خود بھی شاہ نصیر کے شاگرد تھے اور ایک حد تک مقلد بھی، اس وجھ سے ظفر اور ذوق کے کلام میں کئی باتیں مشترک نظر آتی ہیں- لیکن ظفر محاورہ بندی کے استعمال میں ذوق سے بہتر شاعر دکھائی دیتے ہیں

ظفر کے کلام میں وہ تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں جو ان کے عصری شعراء کے ہاں موجود تھیں- شکوہ الفاظ, دھیما پن، عمدہ انداز بیان , رعایت لفظی اور محاورہ بندی ظفر کے کلام کی چند خصوصیات میں سے ہیں- ظفر کی شاعری پر روایتی اثرات بہت گہرے ہیں، کہیں کہیں ان اثرات کو نۓ انداز سے بیان کرتے دکھائی دیتے ہیں اور بعض مقامات پر روایت ہی کو مزید پکا اور مضبوط کرتے ہیں- کچھ اشعار ملاحظہ ہوں جن میں آپ کو روایتی اثرات صاف اور گہرے دکھائی دیں گے

لے گیا ایک ہی بار آنے میں دل اپنا ظفر
ہوگا کیا دیکھیے جب وہ کئی بار آوے گا

ایک غزل کے چند اشعار

محبت چاہیے باہم ہمیں بھی ہو تمہیں بھی ہو
خوشی ہو اس میں یا ہو غم، ہمیں بھی ہو تمہیں بھی ہو
ہم اپنا عشق چمکائیں تم اپنا حسن چمکاؤ
کہ حیراں دیکھ کر عالم، ہمیں بھی ہو تمہیں بھی ہو
ظفر سے کہتا ہے مجنوں کہیں درد دل مخزوں
جو غم سے فرصت اب اک دم، ہمیں بھی ہو تمہیں بھی ہو

ظفر کے کلام میں بہت سی ایسی خصوصیات ہیں جو اس زمانے کو شاعری میں عام تھیں. ان کے ہاں خوبصورت تشبیہ و استعارے کا استعمال ملتا ہے. محاورات بھی مناسب انداز سے استعمال کیے گیے ہیں- ظفر کے ہاں احساس جمال سوائے مومن خان مومن کے دیگر ہمعصر شعراء سے بڑھ کر ہے- ظفر کے اشعار میں دلکشی ہے اور اثر پذیری بھی

کھول کر زلف سیہ اس نے جو دیکھا آئینہ
صاف دریا پر نظر کالی گھٹا سی آ گئی
آگے تو شیوے نہ ہوں گے ایسے چرخ پیر کے
شاید اب پیری کے باعث بے حواسی آ گئی

زلف اس کی ہم سے بل کرنے لگی نا حق
ورنہ کوئی وجہ ایسی کج ادائی کی نہ تھی

ظفر نے فارسی الفاظ، بندشوں اور تراکیب سے غیر معمولی فائدہ اٹھایا لیکن ان کے استعمال میں اعتدال کا دامن نہیں چھوڑا اور 'شمار سبحہ مرغوب بت مشکل پسند آیا' تک نہیں پہنچے - ان کے کلام میں میر کا سا حزن و ملال بھی ہے اور سوزو گداز کا گہرا رنگ بھی- یہ ان کے ذاتی حالات کی پیداوار ہے- اسکی ایک اور وجہ دبستان دہلی کا وہ مخصوص رنگ ہے جہاں دہلی کے شعراء کو غم سے عشق تھا- اس دور کی شاعری میں آہ و زاری، نالہ و فریاد اور رونے دھونے کے مناظر عام دکھائی دیتے ہیں

بہادر شاہ ظفر کا دور زبان سازی کا دور تھا- نئے نئے الفاظ و محاورات، بندشیں، تراکیب، تشبیہ و استعارہ ، ہر لحاظ سے اس دور میں زبان میں اضافے ہویے- اردو زبان کو وسعت ملی- فارسی شاعری جو ختم ہو چکی تھی، نیے انداز سے سامنے آئی، یعنی اردوشاعری میں فارسی الفاظ، خیالات اور تراکیب کی شکل میں- غالب کے کلام میں ایسی مثالیں بکثرت موجود ہیں- پچھلے دور کی شاعری میں سادگی اور سلاست پائی جاتی تھی لیکن اس دور میں صنعت گری اور آرایش زبان کے کئی نمونے ملتے ہیں- یہ ایک حقیقت ہے کہ کلاسیکی شاعری ہمیں آج اس شکل میں نہ ملتی اگر اس دور کے شعراء کو شاہ ظفر کی سر پرستی حاصل نہ ہوئی ہوتی- کلاسیکی شاعری کا ایک حصہ وہ بھی جو دربار میں مشاعروں میں شامل ہونے کے لیے لکھا گیا- ظفر کا اردو شاعری پر یہ بہت بڑا احسان ہے- ضرورت اس امر کی ہے کہ بہادر شاہ ظفر کو اردو ادب میں ان کا صحیح مقام دیا جائے

ضروری ہے کہ بہادر شاہ ظفر کی شاعری اور زندگی پر تحقیق کی جاۓ- اب تک بہادر شاہ ظفر پر ہندوستان میں اردو میں ایک پی ایچ ڈی مقالہ لکھا گیا ہے- ایک پی ایچ ڈی مقالہ آسٹریلیا میں انگریزی زبان میں لکھا گیا ہے لیکن اسکی نوعیت مختلف ہے- ٢٠٠٦ میں سکاٹ لینڈ سے تعلق رکھنے والے مشہور مصنف ولیم دلریمپل نے 'آخری مغل' کے عنوان سے بہادر شاہ ظفر پر انگریزی میں ایک بہترین کتاب تحریر کی ہے - بہادر شاہ ظفر اور اردو شاعری کے لیے ان کی خدمات پر وہ یوں رقمطراز ہیں

"Bahadur Shah Zafar was the last Mughal emperor of Delhi, and one of the most talented, tolerant and likable of his remarkable dynasty. Despite political decline of the Mughals, he succeeded in creating around him a court culture of unparalleled brilliance, and, partly through his patronage, there took place in Delhi one of the greatest literary renaissances in Indian history.

Zafar was a mystic, poet and calligrapher of great charm and accomplishment, but his achievement was to nourish the talents of India's greatest love poet, Ghalib, and his rival, Zauq. "

اپنے دور کے، غالب اور مومن کے بعد، بہادر شاہ ظفر یقیناً تیسرے بڑے شاعر ہیں- شاہ ظفر کے اس مشہور شعر کے ساتھ اجازت چاہتا ہوں

نہ پوچھ مجھ سے ظفر مری تو حقیقت حال
اگر کہوں گا ابھی تجھ کو میں رلا دوں گا

Log in or register to post comments

More from Qatar Living

Qatar’s top beaches for water sports thrills

Qatar’s top beaches for water sports thrills

Let's dive into the best beaches in Qatar, where you can have a blast with water activities, sports and all around fun times.
Most Useful Apps In Qatar - Part Two

Most Useful Apps In Qatar - Part Two

This guide brings you the top apps that will simplify the use of government services in Qatar.
Most Useful Apps In Qatar - Part One

Most Useful Apps In Qatar - Part One

this guide presents the top must-have Qatar-based apps to help you navigate, dine, explore, access government services, and more in the country.
Winter is coming – Qatar’s seasonal adventures await!

Winter is coming – Qatar’s seasonal adventures await!

Qatar's winter months are brimming with unmissable experiences, from the AFC Asian Cup 2023 to the World Aquatics Championships Doha 2024 and a variety of outdoor adventures and cultural delights.
7 Days of Fun: One-Week Activity Plan for Kids

7 Days of Fun: One-Week Activity Plan for Kids

Stuck with a week-long holiday and bored kids? We've got a one week activity plan for fun, learning, and lasting memories.
Wallet-friendly Mango Sticky Rice restaurants that are delightful on a budget

Wallet-friendly Mango Sticky Rice restaurants that are delightful on a budget

Fasten your seatbelts and get ready for a sweet escape into the world of budget-friendly Mango Sticky Rice that's sure to satisfy both your cravings and your budget!
Places to enjoy Mango Sticky Rice in  high-end elegance

Places to enjoy Mango Sticky Rice in high-end elegance

Delve into a world of culinary luxury as we explore the upmarket hotels and fine dining restaurants serving exquisite Mango Sticky Rice.
Where to celebrate World Vegan Day in Qatar

Where to celebrate World Vegan Day in Qatar

Celebrate World Vegan Day with our list of vegan food outlets offering an array of delectable options, spanning from colorful salads to savory shawarma and indulgent desserts.