ادبی واقعہ
مرزا داغ کوئی دس برس تک استاذ ذوق سے اصلاح لیتے رہے، اس کے علاوہ تین سال تک غالب سے بھی اکتساب فیض کیا لیکن ان کے با قاعدہ شاگرد نہیں بنے۔ غالب نے بھی ایک جوہری کی طرح اس جوہر کو پہچان لیا تھا اس لئے ان سے بڑی محبت کرتے اور بڑے چاؤ سے ان کی تربیت کرتے۔ داغ کے شاگرد پورے ہندوستان میں پھیلے ہوئے تھے۔جوش ملسیانی کا اندازہ تھا کہ ان کی تعداد پندرہ ہزار سے کم نہ ہوگی۔ داغ اپنے شاگردوں کے ساتھ اکثر مذاق بھی کرتے تھے۔
ان کے ایک شاگرد مدراس کے ایک شاعر تھے جو شریف تخلص کرتے تھے۔ انہوں نے اپنا کلام چھپوانے کا ارادہ کیا تو استاذ سے پوچھا کہ نام تجویز فرمادیں ۔ داغ نے کہا کلام شریف سے بہتر کیا ہو سکتا ہے۔ انہوں تامل ہوا تو داغ نے کہا بھئی مضطر خیرابادی کا دیوان نہیں دیکھا " کلام مضطر"۔ وہ اللہ کے بندےواقعی اس نام سے اپنا دیوان چھپوا بیٹھے۔ لوگوں نے لے دے شروع کی تو بھاگے ہوئے استاذ کے پاس آئے اور بولے "حضرت غضب ہو گیا لوگ مارے ڈالتے ہیں"۔ داغ نے معصومیت سے کہا :ہاں بات تو ہے بے ادبی کی" شریف صاحب بولے: ہائیں آپ ہی نے تو بتایا تھا" داغ نے ہنس کر کہا :آپ نے اپنے نام کے ساتھ وطن مبارک کی صراحت کیوں نہ کردی۔ کوئی جھگڑا ہی کھڑا نہ ہوتا۔۔ خدا خدا کرکے بلا ٹلی اور کلام شریف، کلام شریف مدراسی کے نام سے شائع ہو گیا۔
قلعے کے اجڑتے ہی داغ رامپور سدھار گئے۔ نواب صاحب نے انہیں 80 روپئے ماہوار پر شاہی اصطبل کا داروغہ بنا دیا۔ رسا رامپوری نے پھبتی کسی:
آہا دہلی سے ایک مشکی خر
آتے ہی اصطبل میں داغ ہوا
داغ کا رنگ سانولا تھا اس لئے پھبتی چپک کر رہ گئی۔
Muztar means distressed, agitated or embarrassed.